Dunia budal sakata hoom

ہاں میں یہ دنیا بدل سکتا ہوں
تحریر:حذیفہ اشرف عاصمی

میرا انکا سب کا ہے کہنا کہ میں یہ دنیا بدل سکتا ہوں …
امن کا پرچم لے کر اٹھو ہر انساں سے پیار کرو
اپنا تو منشور ہے جالب سارے جہاں سے پیار کرو

صدر ذی وقار روز و شب کا عروج وزوال ہر روز سوال بن کر کسی نہ کسی صورت میرے سامنے آجاتا ہے.اس وقت میں خود سے سوال کرتا ہوں ، کیا میں یہ دنیا بدل سکتا ہوں. صدرِ زی وقار یہ سوال پوچھنے کی دیر ہوتی ہے کہ میرے اندر سے ایک آواز آتی ہے ہاں تو دنیا بدل سکتا ہے. ہاں میں دنیا بدل سکتا ہوں جنابِ والی دنیا بدلنے سے پہلے ہمیں اپنے ملک کو بدلنا ہو گاملک کو بدلنے کے لئے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار پر کام کرنا ہوگا. ہمیں ہر اس نظام کو خیر باد کہنا ہو گا جو ہمارے ملک کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہا ہے.
میں بے روزگار لوگوں کو ہاتھ میں ڈگریاں لیے بے یارو مدد گار ٹھوکریں کھاتا دیکھتا ہوں تو میرا ضمیر مجھے جھنجھوڑتا ہے ، ملامت کرتا ہے .تب میرے دل سے صدا نکلتی ہے کہ مجھے اس دنیا کو اس سنسار کو بدلنا ہے. میں یہ دنیا بدل سکتا ہوں .
صدرِعالی وقار میں دنیا کے ابتر حالات اور دم توڑتی سسکتی انسانیت کو دیکھتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا بوں کہ کہنے کو تو گلی محلے شہر اور دنیا کا ہر فرد یہ عظیم جملہ بول سکتا ہے کہ وہ دنیا بدل سکتا ہے . مگر اس دل فریب نعرے کو حقیقت کا روپ کیسے دیا جا سکتا ہے . مایوسی کے اس عالم میں جب امید کے دیے بجھ رہے ہوتے ہیں تو میرے دل و دماغ کے نہاں خانوں سے ایک چنگاری پھوٹ پڑتی ہے .درس دنیا یہی ہے کہ نتیجے کی پروا مت کی جاۓ بس اپنے حصہ کی محنت کی جاۓ.
میری آرزویں اُمنگیں میرے خواب مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں . میں آج یہ سوال خود سے اور آپ سے اور اس پنڈال میں موجود ہر ذی نفس سے کرتا ہوں کہ کیا آج کا بچہ ، آج کا نوجوان آج کی نسل کل کے معمار کی تعمیر کر سکے گا ؟ جواب ملتا ہے نہیں .
کیونکہ جنابِ صدرِ عالی وقار اس دنیا کا مادیت پرستی کا نظام آج دنیا کے ہر معصوم کو شکاری بننے کا درس سکھا رہا ہے . آج کا بے رحم سماج یہ بے دل اور ظالم معاشرہ ہر بچے کا بچپن نگلتا چلا جا رہا ہے جو ملک کا سرمایہ ہے یا جو کچھ کرنا چاہتا ہے. جناب والا بچہ امیر و غریب کا نہیں ہوتا . بچہ صرف بچہ ہوا کرتا ہے . جس کو زندہ رہنے ، آگے بڑھنے کے لئے ہوا پانی روٹی کے ساتھ تعلیم پیار اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے .
کسی معصوم کی غربت یا اس کے مادی اسباب کو اس کی ذہانت فطانت اور کامیابی کے راستے میں نہیں آنا چاہیے .ہر بچے کو آگے بڑھنے کا حق قدرت عطا کرتی ہے مگر یہ حق آج کی دنیا سلب کرتی چلی جا رہی ہے .
۔۔۔جناب والی تب میرے دل سے پھر آواز آتی ہے کیا میں ایسا ملک بدل سکتا ہوں جہاں حالات اس قدر بدحال ہوں.کیا میں ایسا ملک بدل سکتا ہوں جہاں معصوم و غریب کی عزت جاگیرداروں کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہے . کیا میں وہ ملک بدل سکتا ہوں جہاں آج بھی عورت کو اپنے حقوق کے لئے برسرپیکار ہے.کیا میں ایسے ملک کو بدل سکتا ہوں جہاں انصاف ٹکوں کے بھاؤ بکتا ہے . جہاں سیاست آج بھی وزارت و مشرات کے لئے کی جاتی ہے . جہاں غریب ہونا ایک گالی ہے . جہاں دولت کے پجاری ہوس کے پجاری طاقت کے پجاری زندہ انسانوں کو نوچ نوچ کر اپنی پیاس بجھا رہے ہیں .جہاں انسان رنگ نسل مذہب کے نام پر تقسیم در تقسیم ہے.جہاں موت سستی اور زندگی مہنگی ہے . جہاں انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان خود ہے .
۔مجھے اگلے قدم پر اس کا جواب مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ہاں میں یہ دنیا بدل سکتا ہوں. میں سفر کی صعبتوں مشکلوں سے گھبرا کر یہ راستہ جو امن کا راستہ ہے جو پیار کا راستہ ہے جو ترقی کا راستہ ہے جو خوشخالی کا راستہ ہے نہیں بدل سکتا ہے . سارا زمانہ ایک طرف ہو جاۓ تب بھی میں اپنا کام جاری رکھوں گا . بقول شاعر.
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے .
اپنے حصہ کی شمع جلاتے جاتے .
خود کو بدل کر اپنے ارد گرد کے لوگوں کی گندی، بدبو دار اور تنگ سوچوں اور آنکھوں پر پڑی کالی پٹیوں کو ہٹانے سے یہ دنیا بدل سکتی ہے . یہ دنیا بدل سکتی ہے اگر ہر انسان صرف اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی خوشی کا بھی سوچے . اپنا بھلا سب چاہتے ہیں . اپنی خوشی ہر انسان کو عزیز ہوتی ہے . مگر صدر ذی وقار دنیا تب بدلے گی جب انسان دوسروں کی خوشی ، سکھ میں خوشی تلاش کرے گا . جب بڑے غموں کا ماتم چھوڑ کر انسان چھوٹی چھوٹی ہزاروں خوشیاں ضائع ہونے سے بچا لے گا . انسان کی ترقی اسکی خوشی دولت اور مادیت پرستی سے نکل کر جس دن رشتوں کی ترقی پر آگئی اس دن یہ دنیا بدل جاۓ گی.
میں یہ کرنے کے لیے تیار ہوں ہر وہ انسان جو دنیا کو بدلا ہوا دیکھنا چاہتا ہے وہ میرا ساتھ دے تاکہ خوشیاں سکھ اور سکون کی دولت عام ہو جاۓ . گھر سے معاشرے تک انسان کی سوچ کی پرواز کو بلندی عطا ہو جاۓ . ہاں میں آج ببانگ دہل یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں دنیا بدل سکتا ہوں . اگر آپ بھی اس عظیم مقصد میں میرا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو اٹھیے اور اپنے من کی آواز پر لبیک کہتے ہووے خود کو انسانیت کے لئے وقف کر دیں .
آخر میں بس یہی کہوں گا
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا